جادو اور جعلی عامل
21/22 سالہ لڑکی مجھے واقعہ بتاتے ہوئے روپڑی، کہنے لگی، ’’میں ہی وہ بدنصیب ہوں جس کے عشق میں مبتلا ہوکر دو نوجوان قاتل بن گئے اور مقتول کوئی اور نہیں میرا سگا چھوٹا بھائی ہے۔‘‘ اس واقعے کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ شاہدرہ لاہور کی رہائشی اس لڑکی کے گھر اوپری منزل پر دونوجوان لڑکے بطور کرایہ دار رہتے تھے، وہ دونوں اس کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔ لڑکی کبھی ایک لڑکے سے ہنس کر بات کرتی تو کبھی دوسرے سے، لیکن محبت کا اظہار اس نے کسی سے بھی نہ کیا۔ ان دونوں لڑکوں نے فیصلہ کیا کہ لڑکی جس کے حق میں ’’ہاں‘‘ کرے گی، وہی اس سے شادی کرے گا۔
ایک روز انہوں نے ایک عامل سے رابطہ کیا، جس نے انہیں بتایا کہ محبوبہ کو قابو کرنے کا تعویز بنانے کے لیے دوسری کئی چیزوں کے ساتھ انسانی آنکھیں بھی درکار ہوتی ہیں، وہ لے کر آئو۔ وہ دونوں عامل کی باتوں میں آگئے۔ انہوں نے اپنی محبوبہ کے سات سالہ بھائی کو اغوا کرکے اس کی آنکھیں نکالنے کا ارادہ کیا۔ بچہ ان سے مانوس تھا، وہ اسے اغوا کرکے دریائے راوی کے سنسان کنارے لے گئے، اسے بیدردی سے ماردیا اور اس کی دونوں آنکھیں نکال کر عامل کو دے آئے۔ عامل نے ان آنکھوں سے جو تعویز بنایا وہ ایک ایسی خاتون کو دے دیا جواپنے سابقہ منگیتر کو قابو کرنا چاہتی تھی اور ان لڑکوں کو سادہ تعویز دے دیا۔ چند دن بعد پولیس نے ان دونوں لڑکوں اور جعلی عامل کو سات سالہ بچے کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تو میں نے دونوں ملزموں کے انٹرویو کے بعد مقتول بچے کی بہن سے پوچھا تو اس نے روتے ہوئے تصدیق کی۔
جعلی عاملوں اور کالے جادو کا توڑ کرنے والے ایسے فراڈیوں کے ہاتھوں ملک بھر میں ہزاروں خاندان برباد ہوچکے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ گرین ٹائون لاہور میں پیش آیا، جہاں باپ نے عامل کے کہنے پر اپنی تین کمسن بیٹیاں قتل کرکے ’’چلّہ‘‘ کیا، تاکہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہو۔ چائنہ سکیم گجرپورہ میں جن قابو کرنے کے لیے دو جعلی عاملوں نے چلّے کے دوران رکشا ڈرائیور کی قربانی کردی۔ پاکستان میں ’’کالے جادو‘‘ کا شکار ہونے والوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ کالا جادو کیا ہے اور سفید جادو کیا بلا ہے۔ دنیا بھر میںکالے اور سفید جادو سے نئے نئے کرتب اور ٹرکس ایجاد کرلیے گئے ہیں۔ ان دھوکے بازوں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔
قدیم مصریوں اور بابل کے رہنے والوں نے پانچ ہزار سال قبل ’کالے جادو‘ کی بنیاد رکھی۔ قدیم مصر کے جادوگروں کے پاس حصرت موسیٰ کے دور کے جادوگروں کے کئی خطرناک منتر بھی محفوظ تھے۔ قدیم زمانے میں ہر بچّے کے دو نام رکھے جاتے، دوسرا نام اس کی ماں ہمیشہ صیغۂ راز میں رکھتی تھی۔
اس مادری نام پر جادو کردیا جاتا تھا۔ اگر کوئی شخص اپنے دشمن کے ناخن، بال یا جسم کا کوئی حصہ لے آتا تو یہ جادوگر اپنے کالے جادو کا ایسا منتر پڑھتے کہ و ہ تڑپ تڑپ کر مرجاتا۔ اس کالے جادو کو Spells یا Curses کہا جاتا۔ قدیم مصر میں جادو کے عملیات میں دو طرح کے الفاظ استعمال ہوتے، یعنی الفاظ جو منہ سے ادا کیے جاتے اور دوم ایسے الفاظ جو اشکال سے ظاہر کیے جاتے۔ مصر کے جادو تین طرح کے تھے۔ سب سے پرانا جادو حفاظتی کہلاتا، اس کے ذریعے جادوگر اپنے ملک، شہر، قصبے یا بادشاہ کی حفاظت کے لیے ایک حفاظتی حصار قائم کرتے۔ دوسری قسم کا جادو روحانی یا جسمانی بیماریوں سے نجات دلانے کے لیے استعمال کرتے۔ تیسری قسم کا جادو خطرناک کہلاتا، جسے بددعائوں کا جادو کہا جاتا۔
یورپ میں کالا جادو مصر سے ہی منتقل ہوا۔ Magic کا لفظ لاطینی Magicos سے لیا گیا جبکہ لاطینی میں یہ لفظ یونانی الفاظ Magikosسے اخذ کیا گیا۔ یوں مصر سے جادو کے منتر قدیم یونان میں پہنچے، جہاں سے اس کا کچھ حصہ لاطینی یورپ پہنچا۔ لاطینی یورپ سے یہ جادو ماڈرن یورپ کے ممالک تک پہنچا۔ کالے جادو کودی بلیک آرٹ، ڈارک آرٹ، ڈارک میجک اور شیطانزم بھی کہا جاتا ہے۔ یورپ میں پرانے وقتوں میں کالا جادو کرنے والوں کو وچ اور وچ ڈاکٹر کہا جاتا تھا۔ یورپ کے کئی علاقوں میں جادوگروں کو Black Mass بھی کہا جاتا ہے۔ یورپ میں ماضی میں ہزاروں جادوگرنیوں (وچ) کو زندہ جلاکر نفرت کا اظہار کیا جاتا رہا۔ امریکا میں کالا جادو افریقی غلاموں کے ذریعے پہنچا۔ افریقی غلام ووڈو (سفید جادو) اور جوجو (کالا جادو) کا علم اپنے ساتھ امریکا لے گئے جہاں سے فرانس، سپین اور کئی لاطینی امریکی ممالک میں جادو کے افریقی منتر پہنچے۔ یورپ اور امریکا میں کالے جادو اور سفید جادو کو ملاکر بے وقوف بنانے کاسلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جادو سے اخذ کیے گئے کئی علوم کو ’لک‘ یا قسمت سے جوڑ دیا گیا۔ پامسٹ، آسٹرولوجسٹ، تاش کے پتوں کا علم، شیشے کے ٹکڑوں کاعلم، اعدادوشمار کی سائنس اور اس طرح کے کئی علوم کے ماہر بن کر ٹوٹکے لگانے والے کروڑ پتی بن چکے ہیں۔
پاکستان میں بنگالی بابا، شاہ جی سرکار و دیگر ناموں سے سادہ لوح شہریوں کو لوٹنے والے سیکڑوں شاطر جگہ جگہ ڈیرے جمائے نظر آتے ہیں۔ خواتین ان کا بڑا شکار ہوتی ہیں، پڑھے لکھے افراد بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ جادو منتروں اور ٹوٹکوںسے روزانہ ہزاروں افراد کو الو بناکر لاکھوں روپے بٹورتے ہیں۔ وہ کالے جادو کے توڑ کا بھی دعویٰ کرتے ہیں جبکہ وہ خود کالے علم پر ہی عمل پیراہوتے ہیں۔ ان مکاروں نے بدروحوں، چڑیلوں، جنوں، موکلوں اور شیاطین کو قید کرنے کے دعوے بھی کر رکھے ہوتے ہیں۔ ان پر یقین کرنے والے سیکڑوں گھرانوں کو میں خود تباہ ہوتے دیکھ چکا ہوں۔
لوگوں کا بُرا کرنے والے یہ لوگ بھی بُری موت کا شکار ہوتے ہیں۔ جس عامل نے انسانی آنکھوں سے تعویز بناکر ایک بچے کو قتل کروایا تھا، اس کا انجام بھی برا ہوا، وہ جیل میں بلڈپریشر بہت زیادہ بڑھ جانے سے اندھے پن کا شکار ہوگیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ جو خاتون اس سے بچّے کی آنکھوں والا تعویز لے کر گئی تھی، اسے لے جانے والے رکشے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا، اس حادثے میں وہ بھی ہلاک ہوگئی۔ لاہور میں ہی جس شخص نے بیٹے کی پیدائش کے چلّے کے دوران اپنی تین بیٹیوں کو قتل کیا، اسے ایس ایس پی کے سیکیورٹی گارڈ کانسٹیبل نے فرط جذبات میں آکر پورا برسٹ مار کر ہلاک کردیا، جن قابو کرنے کے لیے رکشا ڈرائیور کی قربانی کرنے والے دونوں جعلی عامل بعد ازاں پاگل پن کا شکار ہوگئے۔ اسلام دین فطرت ہے، اس نے جادو کو حرام قرار دیا ہے۔ اگر کسی پر کالے جادو کے اثرات ہوجائیں تو وہ ان جعلی عاملوں کے پاس جانے کے بجائے قرآن پاک میں موجود چاروں قل شریف پڑھے، ان شاء اللہ شفا پائے گا۔
منقول