آزادی وقت کی ایک سچی داستان
تحریر۔۔۔۔ابن علیم رانا
29اگست 1947
پاکستان بننے کے پندرہ دن بعد ایک شام ہندوستان میں موجود ضلع امبالہ کے ایک گاؤں میں پھٹے پرانے سے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص نمودار ہوا۔
فقیرانہ سا حلیہ اپناۓ وہ دردربھیک مانگتا پھرتا اور رات ہوتے ہیں کہیں بھی پڑ کر سوجاتا۔
اس گاؤں میں اسے آج پانچواں دن تھا۔
اس نے گاؤں کے ہر گھر سے بھیک لےلی تھی۔
ویسے بھی گاؤں میں زیادہ تر گھر خالی ہی پڑے تھے۔
یہ ان مسلمانوں کے گھر تھے۔
جو کچھ دن پہلے ہی یہاں سے ہجرت کرکے آزادی کی خاطر پاکستان گئے تھے۔
یہ الگ بات ہے ۔کہہ
ان میں سے چند ہی پاکستان پہنچ پاۓ تھے۔
باقی راستے میں ہی شہید کردیے گئے۔
اس گاؤں اور آس پاس کے گاؤں میں اب صرف ہندو اور سکھوں کا راج تھا۔
ان ہی گاؤں میں سے ایک گاؤں میں ویران پڑا ایک گھر اس فقیر کا بھی تھا۔
اگلے دن یہ فقیر دوسرے گاؤں کی طرف چل پڑا۔
اس گاؤں میں بھی اس نے سارے گھر چھان لیے۔مگر
اس کی مراد پوری نہ ہوئی۔
کچھ دن بعد وہ تیسرے گاؤں کی طرف جارہا تھا۔کہہ
اچانک اس کا سامنا سامنے سے بیل لیکر آتے ایک جوان لڑکے سے ہوگیا۔
لڑکے کو دیکھ فقیر بنے اس شخص کی آنکھوں میں پہچان کا تاثرابھرا۔
وہ دوڑکر اس جوان تک پہنچا۔
اتنی دیر میں اس جوان کی نظر بھی اس فقیر پر پڑگئی تھی۔
تایا۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟ جوان کے لہجے میں دنیاجہان کی حیرت تھی۔
پھر وہ جوان اس فقیر تک پہنچا۔اور
اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کررودیا۔
اس کی زبان پربس ایک ہی تکرار تھی۔
تایا مجھے یہاں سے لےجاؤ۔
مجھے پاکستان جانا ہے۔
اتنے میں دور سے ایک سکھ آتا دکھائی دیا۔
جوان نے فقیر کو بتایا۔کہہ
یہ بیل اس سکھ کے ہیں۔اور
اسی نے اسے زبردستی اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
فقیر اس جوان کو جلد یہاں سے آزادی کی نوید سناکر ایک طرف چل پڑا۔
شام ہوتے ہی وہی فقیر جھولی پہنے گھرگھر بھیک کی صدا دینے لگا۔کہہ
اچانک سکھوں کے ایک گھر کا دروازہ کھلا۔اور
اس میں سے ایک لڑکی نے ہاتھ میں آٹے کی پلیٹ لیکر باہرجھانکا۔
فقیر پر نظرپڑتے ہی اس لڑکی کے ہاتھ سے پلیٹ چھوٹ گئی۔
چاچا صدیق۔۔۔۔؟؟؟ لڑکی کے منہ سے بےساختہ نکلا۔اور
ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو بھی۔
شش چپ رہو۔۔۔۔فقیر نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر لڑکی کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
ان لوگوں کو پتہ چل گیا تو میں ماراجاؤنگا۔
میں تم لوگوں کو ہی لینے آیا ہوں۔اور
جلد یہاں سے سب کو لےجاؤنگا۔
لڑکی کا بس نہیں چل رہا تھا۔ورنہ
وہ اسی وقت اس فقیر کے ساتھ چل پڑتی۔۔
دل پہ ضبط کیے وہ پلٹی۔اور
آنکھوں میں آزادی کا خواب لیے اندر کی طرف چلی گئی۔
صدیق نام کا یہ شخص تین ماہ تک فقیر بنا گاؤں گاؤں پھرتارہا۔
الگ الگ گاؤں کے سکھوں کے مختلف گھروں سے اسے اس کا مقصد مل گیا۔
جس کے لیے وہ پاکستان سے دوبارہ یہاں آیا تھا۔
پھر ایک رات وہ چار لڑکیوں اور ایک لڑکے کو لیکر خاموشی سے پاکستان کی طرف چل پڑا۔
راستے کے مناظر ابھی بھی وہی تھے۔
جگہ جگہ انسانی لاشیں اور ٹوٹا پھوٹا سامان بکھرا پڑا تھا۔
یہ ان شہیدوں کی لاشیں تھیں۔
جو آنکھوں میں آزادی کا خواب لیے پاکستان کی طرف چلے تھے۔مگر
یہ لوگ پاکستان نہیں پہنچ پاۓ۔
البتہ
پاکستان کے یہ مسافر جنت کے مسافر بن گئے۔
محمد صدیق ان سب کو لیکر پاکستان مہاجروں کے کیمپ میں جاپہنچا۔
جہاں اس کے قبیلے کے لوگ پہلے سے موجود تھے۔
جن کو یہ لیکر آیا تھا۔
ان میں سے ایک لڑکی چند دن بعد فوت ہوگئی تھی۔
شاید وہ اب تک اسی لیے زندہ تھی۔کہہ
اسے اپنے پاکستان کی مٹی میں دفن ہونا تھا۔
یہ کوئی فرضی کہانی نہیں ہے۔
یہ میرے مرحوم والد صاحب نے مجھے سنائی تھی۔
وہ کہتے تھے۔کہہ
جب لٹے پٹے ہم پاکستان پہنچے تو کئی لوگوں کو کھوچکے تھے۔
ہمارے قبیلے کی چارلڑکیاں بھی سکھ اٹھاکرلےگئے۔
جن کو میرے پھوپھا صدیق تین ماہ فقیر بنے تلاش کرتے رہے۔اور
واپس لیکر آۓ۔
میرے والد صاحب نے جب یہ قصہ مجھے سنایا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میرا دل کٹ کر رہ گیا۔
ان کے آنسو یہ بتانے کے لیے کافی تھے۔کہہ
عرصہ دراز گزرجانے کے باوجود زخم آج بھی ہرے ہیں۔
کئی اچھی بری یادوں کی کسک آج بھی موجود ہے۔
اپنوں کی جدائی آج بھی بےچین رکھتی ہے۔
دل آج بھی لہو روتا ہے۔
آزادی اتنی سستی نہیں ملی تھی۔اور
کسی بھی چیز کی حقیقی قدر وہی جانتا ہے۔
جس نے اس کی قیمت ادا کی ہو۔
اور
وہ چیز اور اس کی قدر ان لوگوں کے لیے انمول ہوجاتی ہے۔
جنہوں نے اس کی قیمت خون سے ادا کی ہو۔
وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔
اپنے وطن کی قدر کیجیے۔اور
اس کے وفادار رہیے۔
ابن علیم رانا