یہ کہانی جو میں آج آپ سب کو سنانے جا رہا ہوں. یہ میرے سگے پھوپھا جان کی کہانی ہے اور مجھے میرے ابو نے سنائی ہے. آنکھوں دیکھا حال میرے ابو کی زبانی سنئے.
یہ اب سے تقریبا 40 سال پرانی بات ہے. میری اور چھوٹی بہن کی ایک ساتھ شادی ہوئی تھی. سب بہت خوش تھے ۔لیکن شادی کے تھوڑے ہی عرصے بعد میرا بہنوئی بیمار رہنے لگا. بہت جگہ دکھایا. مختلف ٹیسٹ ٹیسٹ بھی ہوئے. جھاڑپھونک بھی کروائی. لیکن اس کا مرض تھا ختم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا تھا. نہ جانے کون سا مرض تھا کہ ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔بہنوئی ٹھیک ہونے کے بجائے دن بدن سوکھتا جا رہا تھا. جو ہم سب کے لئے تکلیف کا باعث تھا.
میری بہن جو ابھی نئی نئی دلہن تھی. وہ الگ فکر میں گھل رہی تھی. اس کی آنکھوں میں ہر وقت نمی چھائی رہتی. وہ ہنسنا بھول گئی تھی. اس کے چہرے پر اداسی ویرانی سی چھا کر رہ گئی تھی. ہم سب اس کو سمجھاتے تسلی دیتے. لیکن وہ رو دیتی تھی. جس سے ہم سب اذیت میں مبتلا تھے
۔میرا بہنوئی اکلوتا تھا. ماں باپ نہیں تھے. ایک صرف شادی شدہ بہن تھیں اور ایک چچا تھے جو اس کے گھر کے برابر رہتے تھے. اب بہنوئی کی بیماری کی وجہ سے اس کا کاروبار وہی دیکھ رہے تھے کیونکہ بہنوئی شدید بیمار تھا ۔پھر ایک دن مجھ سے میری بہن کی پریشانی نہیں دیکھی گئی تو میں بہن اور بہنوئی کو اپنے گھر لے آیا کہ جب تک بہنوئی ٹھیک نہیں ہو جاتے. تو یہ میرے ساتھ رہیں. میں نے اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو دکھایا. لیکن سب مایوس ہوگئے ۔بہن کو میرے گھر آئے دو ہفتے سے زیادہ ہوگئے تھے لیکن ہمیں کہیں کامیابی نہیں ملی تھی. میں کتنے عاملوں کو بھی دکھا چکا تھا. لیکن سب کا یہی کہنا تھا کہ اب ان میں کچھ نہیں بچا بہت سخت عمل ہے. ہمارے بس کی بات نہیں. میں نے یہ بات اپنی بہن سے چھپائی تھی کیونکہ وہ اور پریشان ہوتی. میں اندر ہی اندر فکر میں گھل رہا تھا. میرا بہنوئی مر رہا تھا. اور میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہا تھا ۔میرے دن رات انگاروں پے گزر رہے تھے. میں ساری ساری رات جاگ کر ٹہلتا رہتا تھا. اور دیمک کی طرح اندر ہی اندر میں کھوکھلا ہو رہا تھا.
ایک روز میں چائے کے ہوٹل پر بیٹھا ہوا سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ ساتھ والی کرسی پر کوئی آ کر بیٹھا اور اس نے پانی کا جگ اور گلاس منگوایا ۔بیرا اس کو پانی کا جگ اور گلاس دے کر چلا گیا. آدمی نے دوبارہ آواز دی اور کہا کہ میں نے تم سے پانی کا جگ منگوایا تھا تم دودھ کیوں لے آئے. بیرے نے بڑی حیرت سے دیکھا اور جگ میں دیکھا تو اس میں واقعی دودھ تھا. بیرے نے کہا کہ پتہ نہیں صاحب میں تو پانی ہی لے کر آیا تھا. چلیں میں دوبارہ لے آتا ہوں پانی ۔جیسے اس نے جگ اٹھایا تو اس میں پانی تھا. اس نے کہا کہ صاحب آپ تو تنگ کر رہے ہو. اس میں پانی ہی تو ہے. تو اس نے جگ واپس ٹیبل پر رکھا. میری توجہ ان کی طرف ہوگئی. ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ جگ بیرے کے ہاتھوں میں تھا تو اس میں پانی تھا. لیکن جیسے اس شخص نے اس جگ کو ہاتھ لگایا تو وہ دودھ میں تبدیل ہوگیا. یہ سب کچھ میری نظروں کے سامنے ہوا ۔میں نے یہ سب پہلی دفعہ دیکھا اور میری آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں. بیرا جا چکا تھا. میرے کانوں میں اس شخص کی آواز آئی کہ پریشان لگ رہے ہو. کیا بات ہے. میں نے اس کو دیکھا وہ بہت مہذب اور خاندانی لگ رہا تھا. کوئی جادوگر یا جعلی عامل بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا. داڑھی تھی. شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی ۔میں چپ رہا تو مجھے بولا کہ تم مجھ پر بھروسہ کر سکتے ہو. اپنی پریشانی بتاؤ. ہو سکتا ہے میں کچھ کام آسکوں. تو میں نے سوچا چلو ایک تجربہ اور سہی. شاید یہ میرے کام آ سکے. میں نے اس کو اپنی ساری بات بتا دی. وہ بہت تحمل سے گردن جھکائے میری ساری بات سنتا رہا. جب میری بات ختم ہوئی تو اس نے کہا کہ کیا تم مجھے ابھی اپنے بہنوئی کو دکھا سکتے ہو.
میں نے کہا کیوں نہیں وہ میرے ہی گھر پر ہے اور میں چاہتا ہوں کہ جلد از جلد علاج شروع ہو جائے
۔مجھے امید نہیں تھی کہ وہ ابھی میرے ساتھ چلنے پر راضی ہوجائیں گے کیونکہ رات کافی ہوچکی تھی.
انہوں نے کہا کہ چلو اور میں ان کو لے کر گھر آ گیا. گھر آ کر میں نے اپنی امی بیوی اور بہن کو دوسرے کمرے میں بھیجا اور میں نے عامل صاحب کو اندر بلا لیا.
انہوں نے میرے بہنوئی کو دیکھا. تھوڑی دیر حساب کتاب کیا. ان کے چہرے پر پریشانی آ گئی.
جاری ہے ۔۔۔
انہوں نے میرے بہنوئی کو دیکھا. تھوڑی دیر حساب کتاب کیا. ان کے چہرے پر پریشانی آ گئی. انہوں نے کہا. جلدی سے انگیٹھی پر سرسوں کا تیل گرم کرو ۔میں نے فورا حکم کی تعمیل کی اور ایک کڑھائی میں تیل گرم ہونے رکھ دیا. جب تیل کھولنے لگا تو عامل صاحب نے تازہ وضو کیا اور کچھ پڑھتے ہوئے اپنا گیلا پیر اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دیا. میں کانپ کر رہ گیا. کیونکہ کوئی عام آدمی اس کھولتے تیل میں اپنی انگلی بھی نہیں ڈال سکتا تھا. تھوڑی سی چھن کی آواز آئی اور چند لمحوں بعد انہوں نے اپنا پیر واپس نکال لیا. پیر بالکل صحیح تھا. جیسے کچھ ہوا ہی نہیں.
پیر صاف کرکے انہوں نے مجھے کہا کہ دیکھو تمہارے بہنوئی پر زبردست کالاجادو کروایا گیا ہے جس کی مدت اب ختم ہونے والی ہے. یعنی تمہارے بہنوئی کے پاس اب وقت نہیں ہے. تو میں نے کہا یعنی کوئی میرے بہنوئی کو مروانا چاہتا ہے. لیکن کون؟ کس کو میرے بہنوئی سے تکلیف ہے. انہوں نے کہا. دیکھو تمہارے بہنوئی کا کوئی عزیز ہے. مرد ہے. جو تمہارے بہنوئی کی جان لینے کے پیچھے پڑا ہوا ہے. اب یہ تو تمہیں بہتر معلوم ہوگا کہ تمہارے بہنوئی کے مرنے سے کس کو فائدہ ہوگا ۔میں نے کہا لیکن میرے بہنوئی کی تو صرف ایک بہن ہے بیوہ. جس کی دو بیٹیاں ہیں ان کی کفالت بھی میرے بہنوئی کے کاروبار سے ہوتی ہے. ہاں ایک چچا. وہ بہت نیک انسان ہیں. آجکل بہنوئی کا کاروبار وہی دیکھ رہے ہیں. انہوں نے کہا کہ آج کل نیکی بدی کو کون دیکھتا ہے. دولت اتنی بری شے ہے کہ بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے. اور تم چچا کی بات کرتے ہو ۔تم نے بتایا کہ تمہارا بہنوئی اکلوتا ہے یعنی اپنے چچا کا اکلوتا بھتیجا ہے. یعنی ان کے بھائی کی جائیداد کا وارث ہے. تو پھر وہ کیوں چاہیں گے کہ یہ زندہ رہے اور جائیداد پر عیش کرے. وہ تو سب کچھ ھتھیانا چاہیں گے.
مجھے ہضم نہیں ہو رہی تھی یہ بات.. میں نے کہا. پھر بھی کوئی دولت کے لیے اتنا گر سکتا ہے کہ اپنے ہی خون کی جان لینا چاہیے ۔عامل صاحب نے کہا. اس کو چھوڑو ہم تمہیں شکل دکھا دیں گے. تم خود پہچان لینا. فلحال کام کی بات کرتے ہیں. تم ہمیں کیا نذرانہ دے سکتے اپنے بہنوئی کے علاج کے لئے.. اس سے پہلے ہماری چند باتیں سن لو. ہم اصلی سید ہیں اور خاندانی عمل ہے. ہمارے بزرگوں نے ہمیں بخشا ہے. یہ عمل جو ہم کرنے جا رہے ہیں یہ صرف ضرورت کے تحت سال میں ایک یا دو بار سے زیادہ نہیں کرتے ۔دوسری بات یہ کہ تمہارے بہنوئی پر بہت سخت موت کی ہانڈی کا عمل کروایا گیا ہے جس سے موت یقینی ہوتی ہے. اور تمہارے بہنوئی کی مدت تقریبا ختم ہونے والی ہے. کوئی بھی عامل اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالے گا. بہت سخت عمل ہے. اب بتاؤ… میں نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے. میں نے کہا خدارا شاہ صاحب،، اللہ کے بعد آپ کا سہارا ہے. میں آپ کی زندگی بھر غلامی کرنے کو تیار ہوں. بس میرے بہنوئی کو بچا لیجئے. میری بہن کا سہاگ اجڑنے سے بچا لیجئے ۔انہوں نے کہا. ہم ضرور کریں گے علاج، بلکہ ہم آے ہی اس لیے ہیں. لیکن کیا تم اس عمل کی کاٹ کا خرچہ برداشت کرسکتے ہو ؛؟؟
میں نے کہا آپ بتائیے میں کیسے بھی کرکے دوں گا. انہوں نے کہا ویسے تو اس کام کے دس ہزار بنتے ہیں. لیکن تم 6000 دے دینا. کہو منظور ہے؟
اس زمانے میں 6000 بھی بہت بڑی رقم تھی اور میں اپنے بہنوئی کے علاج پر بہت پیسہ برباد کرچکا تھا. میرا بھی اپنا کاروبار تھا اور میں ہر قیمت پر بہن کو اجڑنے سے بچانا چاہتا تھا ۔میں نے حامی بھر لی ۔میں نے کہا جی شاہ صاحب مجھے منظور ہے. شاہ صاحب نے کہا. تو پھر سنو یہ جو ابھی ہم نے تیل تیار کیا ہے. یہ آج رات سے ہی اس تیل کی مالش شروع کر دو. یاد رہے مالش پورے جسم پر کرنی ہے. اور روزانہ کرنی ہے. اب ہم چلتے ہیں باقی کام پرسوں کریں گے. انشاءاللہ امید ہے کامیابی ہوگی ۔وہ چلے گئے.
میں نے گھر میں آکر خواتین کو ساری بات بتائی. ان کو تسلی دی کہ اب جلدی دولہا بھائی ٹھیک ہوجائیں گے. میری باتیں سن کر میری بہن کے چہرے پر رونق آگئی. بحر حال میں بہنوئی کے کمرے میں آیا. وہ بے سدھ پڑے تھے. مجھے ان کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا. صرف چند مہینوں میں ہی انکی کیا سے کیا حالت ہو گئی تھی ۔میں سوچ رہا تھا کہ امی کہا کرتی تھیں کہ خون سفید ہو گئے ہیں لیکن میں کہتا ہوں خون سفید نہیں سیاہ ہوگئے ہیں. تب ہی محبت مروت احساس کا کوئی رنگ اثرانداز نہیں ہوتا اور ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی بے حسی بے حسی کے ہاتھوں تاریکیوں میں دھکیل دیے جاتے ہیں ۔اور کالا جادو اتنا خطرناک اور گندا عمل ہے کہ کروانے والا اگر مسلمان ہو تو اسی وقت دارہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور افسوس ان لوگوں پر ہے. کہ جو جانتے بوجھتے جہنم میں گرتے ہیں اور مسلمان ہوکر خوف خدا نہیں کرتے اور اتنا قبیح فعل سرانجام دیتے ہیں ۔
میں نے دروازہ بند کر کے دولہا بھائی کی مالش کی اور تین دن کرتارہا. تیسرے روز وعدے کے مطابق شاہ صاحب خود آ گئے. دوپہر کا وقت تھا ۔میں ان کو لے کر دولہا بھائی کے کمرے کی طرف چلا گیا. انہوں نے مجھے کہا کہ آج ہمیں بڑا عمل کرنا ہے. اجازت ہے؟ میں نے کہا. جی شاہ صاحب. جیسے مرضی ہونے. انہوں نے کہا کہ کوئی بچہ تو نہیں ہے گھر میں؟ میں نے کہا. جی نہیں صرف خواتین ہیں. انہوں نے کہا.. ایسا کرو ان سب کو ایک کمرے میں رہنے کی ہدایت کر دو اور تاکید کردو کہ کمرے سے باہر نہ نکلیں. عمل بہت سخت ہے. دراصل آج ہم ہانڈی یہاں بلوائیں گے ۔میں میں اندر گھر کی طرف چلا گیا اور سب خواتین کو کمرے کے اندر رہنے کی تاکید کرتا ہوا شاہ صاحب کے پاس آگیا..
میں جب کمرے میں آیا تو دلہا بھائی کمرے میں کھڑے تھے اور شاہ صاحب کچھ پڑھتے ہوئے ان کا حصار کر رہے تھے. دلہا بھائی میں نہ جانے کیسے کھڑے ہونے کی طاقت آگئی تھی. شاید یہ اس تیل کا کمال تھا. جو مالش کرنے کے لیے دیا گیا تھا اور میں نے بلاناغہ تین دن تک اس تیل کی مالش کی تھی ۔اس لیے دولہا بھائی بڑی ہمت سے دیوار سے لگے کھڑے تھے. شاہ صاحب نے دلہا بھائی کو کہا. بیٹا تمہیں کسی بھی صورت میں اس حصار سے باہر نہیں نکلنا ہے. ورنہ سارا عمل الٹا پڑ جائے گا. یہی کھڑے رہو. عمل ختم ہونے تک. تو انہوں نے جی کہہ کر سر جھکا دیا ۔اس کے بعد شاہ صاحب نے میرا بھی حصار کیا اور پھر دائرہ بنا کر حصار کر کے خود بھی بیٹھ گئے عمل شروع کر دیا.
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کمرے میں موجود روشندان میں زبردست گڑگڑاہٹ ہونے لگی ۔میں نے چونک کر روشن دان کی طرف دیکھا. تو وہاں ہانڈی پھنسی ہوئی تھی. ہانڈی کو آتا دیکھ کر شاہ صاحب کے عمل میں تیزی آگئی. اور وہ بلند آواز میں کچھ پڑھنے لگے. جیسے جیسے شاہ صاحب کی آواز بلند ہو رہی تھی. ہانڈی کی گڑگڑاہٹ بڑھتی جا رہی تھی ۔لیکن وہ نیچے نہیں آرہی تھی. پھر شاہ صاحب نے اس کو قسم دی ۔”تجھے حضرت سلیمان کی قسم ہے نیچے آ.”
جیسے ہی یہ الفاظ دھرائے. ہانڈی زوردار گڑگڑاہٹ کے ساتھ کمرے میں اتری ۔تھوڑی سی چکرانے کے بعد زوردار دھماکے سے زمین پر گر کر پھٹ گئ.. اس کے گرنے کی آواز اتنی شدید تھی کہ جیسے بم پھٹا ہو. ہم نے اپنے کان بند کر لیے. دوسرے کمرے میں موجود خواتین کے دل بھی دہل گئے ہوں گے ۔ہانڈی پھٹی تو اس کے اندر موجود سارا سامان بکھر گیا نہ جانے کیا کیا چیزیں تھیں. قابل ذکر چیز ایک پتلا تھا. جس پر دولہا بھائی کا نام لکھا ہوا تھا. میں حیران نگاہوں سے اس پتلے اور سامان کو دیکھ رہا تھا. کہ شاہ صاحب نے مجھے کہا. جلدی سے ایک بالٹی میں پانی لے کر آؤ ۔میں دوڑ کر پانی سے بھری بالٹی اٹھا لایا. شاہ صاحب نے بیلچے کی مدد سے وہ سارا سامان اس بالٹی میں ڈال دیا. اس سامان سے بری طرح دھوئیں اٹھ رہے تھے اور اس طرح کھول رہا تھا جیسے چونا ابل رہا ہو.
۔تھوڑی ہی دیر میں سب کچھ نارمل ہوگیا. میں نے شاہ صاحب کی ہدایت پر سب سے پہلے دلہا بھائی کو ان کے بستر تک پہنچا کر لٹا دیا.. کیونکہ وہ بری طرح چکرا رہے تھے. اور اتنی بری طرح ہانپ رہے تھے. جس سے میلوں بھاگ کر آئے ہیں. میں نے انہیں پانی پلایا ۔شاہ صاحب نے دلہا بھائی کو کہا.. بے فکر ہو کر آرام کرو بیٹا. اب کوئی خطرہ نہیں. تم بالکل محفوظ ہو. اللہ کے فضل و کرم سے تمہارے دشمنوں کے ارادے مٹی میں مل گئے ہیں. اب انشاءاللہ تم بہت جلد صحت یاب ہو جاؤ گے ۔میں نے کہا. شاہ صاحب آپ نے میری بہن کا سہاگ اجڑنے سے بچا کر جو مجھ پر احسان کیا. میں اس کے لیے کس منہ سے شکریہ ادا کروں وہ بولے. نہیں بیٹا میں تو وسیلہ ہوں. اللہ تعالی کی رحمت کا. اس نے ہمیں کامیابی دی. ساری تعریفیں اسی کے لئے ہیں . انہوں نے کہا اب یہ ہانڈی کا جو سامان ہے یہ رات کی تاریکی میں جاکر قبرستان میں دفنا دینا اور بس ہمیں دعاؤں میں یاد رکھنا ۔شاہ صاحب کو میں نے ہدیہ نذرانہ دے کر رخصت کیا. اور وہ پوٹلی جو شاہ صاحب نے باندھی تھی. میں نے احتیاط سے رکھ لی. گھر کے سب افراد نے سجدہ شکر ادا کیا کہ اس پاک پروردگار نے شاہ صاحب کو ہمارے لئے وسیلہ بنا کر بھیجا. ورنہ اس موت کی ہانڈی کی مدت ختم ہونے میں چند دن باقی تھے ۔رات میں قبرستان جاکر میں نے وہ پوٹلی بڑی احتیاط سے گھڑا کھود کے دفنا دی.
اتنے سال گزرنے کے بعد بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میرے بہنوئی کی طبیعت اس عمل کے فورا بعد سے ہی سنبھلنی شروع ہوگئی تھی اور اب وہ ماشااللہ مکمل طور پر صحت مند ہیں ۔یہ الگ داستان ہے کہ انہوں نے اپنے چچا سے کس طرح جان چھڑوائی ۔
اگر آپ لوگ مزید ایسی کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو مجھے فالو کر لیں یا پھر فرینڈ ریقیست بھیج دیں اسطرح میں جب بھی گروپ میں کوئی پوسٹ اپلوڈ کروں گا آپ تو کو نوٹیفکیشن مل جاۓ گا ۔۔۔
اگر کوئی قسط نہیں ملتی تو آپ آپ میسج کر کے بھی لنک مانگ سکتے ہیں ۔۔