میں اور علی ہمارے ایک دوست کی شادی سے واپس آ رہے تھے۔ہوا کچھ یوں تھا کہ ہم دونوں باٸیک پر سوار ایک گاٶں سے واپس شہر آ رہے تھے۔رات کے تین بج رہے تھے اور آسمان پہ گہرے بادل چھاۓ تھے۔کچے راستے پہ ہماری باٸیک ہوا کے ساتھ دوڑ رہی تھی۔
اچانک بادل گرجے اور ہماری باٸیک بھی دو جھٹکے کھا کر رک گٸ۔ہر طرف سناٹا تھا بادل گرج رہے تھے۔کچے راستوں سے بہت خوف آ رہا تھا۔ہر طرف گہرا اندھیرا چھایا تھا۔
اچانک مجھے کچھ محسوس ہوا میں نے داٸیں باٸیں دیکھا مگر علی کے علاوہ وہاں اور کچھ نظر نہیں آیا۔میں نے موباٸل کی ٹارچ چلا کر باٸیک رکنے کی وجہ تلاش کرنے لگا۔
باٸیک کے دونوں ٹاٸر بری طرح سے پھٹ چکے تھے۔
اب اس ماحول میں اور رکنا ٹھیک نہیں تھا۔میں نے علی کو کہا۔”چلو اب سڑک تک پیدل چلتے ھیں وہاں پہنچ کر سوچتے ھیں کہ کیا کرنا ھے“
”ہاں چلو“ وہ اتنا کہہ کر میرے پیچھے چلنے لگا۔باٸیک میرے ہاتھ میں تھی۔
کچے اور کالے راستے پہ ہم آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔اچانک ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگٸ۔
بارش سے ہمارے کپڑے بھیگ رہے تھے۔
علی نے ایک درخت کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔”اُدھر چلو درخت کے نیچے“
میں نے اس درخت کی طرف موبائل والی ٹارچ کی جس سے وہ بڑا سا درخت نظر آنے لگا۔
ہم جلدی سے اس درخت کے نیچھے چلے گۓ۔درخت خاصا بڑا اور خوش حال تھا۔
مجھے بارش کے علاوہ کٸی دوسری چیزوں کی آواز سناٸ دے رہی تھی۔
اچانک درخت پر بیٹھا الوّ چلانے لگا۔یوں لگ رہا تھا جیسے اسے کوٸ کاٹ رہا ہو۔الوّ چیخ و پکار کر رہا تھا۔
میں نے ٹارچ اوپر کی مگر وہاں کچھ نہیں تھا۔
”علی یہاں تو کوٸ……..
میں نے ٹارچ علی کی طرف کی اور میری بات ادھوری رہ گٸ۔وہ اب وہاں نہیں تھا۔
”علی کیا تم درخت کی دوسری طرف چلے گۓ“
میں درخت کی دوسری طرف جاتے ہوۓ آواز لگا رہا تھا۔
میں حیران رہ جب وہ مجھے درخت کی دوسری طرف بھی نا ملا۔میں نے ٹارچ کو اوپر کیا۔
ایک زوردار چیخ فضا میں بلند ہوٸ۔
وہاں درخت کے تنوں کے ساتھ عجیب قسم کے خوفناک پتلے لٹکے ہوۓ تھے۔
ایک عجیب سا خوف میرے دل میں آیا کہ یہ آسیب زدہ درخت ھے اور وہ آسیب علی کو لے گیا ھے۔
میں نے باٸیک وہی چھوڑ دی اور اسے آس پاس تلاش کرنے لگا۔میرا دل مسلسل تیز رفتار سے دھڑک رہا تھا۔میں بارش میں بھیگتے ہوۓ اسے آس پاس تلاش کر رہا تھا۔
علی کو آوازیں لگا لگا کر میرا گلے میں اب درد شروع ہو چکا تھا۔
اتنے اندھیرے میں کوٸ بھی خوف کھا سکتا تھا۔میں اس آس پاس ہر جگہ تلاش کر کے واپس باٸیک کے پاس آیا۔
بارش رک چکی تھی۔میں باٸیک کو درخت سے تھوڑے فاصلے پہ کھڑا کر دیا۔
مجھے اس درخت سے خوف آ رہا تھا۔
کچھ دیر پہلے میری آنکھوں میں نیند تھی مگر اس وقت میں سو کیسے سکتا تھا۔
علی کے اچانک غاٸب ہو جانے سے میں سخت خوف کا شکار ہو چکا تھا۔
میں مسلسل درخت کو دیکھ رہا تھا۔
میرے کندے پہ کسی نے ہاتھ رکھا میں نے تیزی سے باٸیک سے چھلانگ لگا کر پیچھے دیکھا۔
وہاں علی عجیب سی مسکڑاہٹ لیے کھڑا تھا۔
میری جان میں جان آٸ تو میں اس کے قریب
جا کر اسے غور سے دیکھا۔
”کہاں گۓ تھے تم“
میں نے زرا غصے سے پوچھا۔
”بس یوں ہی سیر کو نکلا تھا“
اس نے بڑے آرام سے کہہ دیا تھا میری حالت ابھی بھی خوف میں ڈوبی تھی۔
مجھے علی کچھ عجیب سا لگ رہا تھا جیسے وہ علی نہیں تھا کوٸ اور ہو وہ بات بھی الگ انداز میں کر رہا تھا لیکن میں اسے کچھ کہہ نا سکا کیوں کہ اگر وہ آسیب ہوتا تو مجھے مار دیتا۔
ہم وہاں سے روڈ تک آۓ اور وہاں سے ایک کار سے لفٹ لے کر شہر پہنچ گۓ۔
وہ علی تھا یا کوٸ اور میں پھر اس سے نہیں ملا۔