مہمان نوازی
یہ واقع میرے خود کے ساتھ ہوا تھا جب میں، میرا دوست اور اُسکی فیملی سیر کے لیئے ہنزہ گئے تھے۔
رات کا دوسرا پہر ختم ہونے کو تھا، ہم ناران سے بارہ تیرہ گھنٹے کا سفر کر کے علی آباد پہنچے جو کے ہنزہ کا ایک پُر سکون اور پہاڑوں سے گھرا ہوا علاقہ ہے۔ چونکہ ہنزہ کے لوگ صرف دن میں کام کرتے ہیں اور وہاں سردی بھی انتہا کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہاں بہت سناٹا اور وحشت پھیلی ہوئی تھی اور اسی وجہ سے ہمیں کمرہ تلاش کرنے میں کافی دشواری ہوئی۔ کافی پھرنے پر بھی ہمیں ہوٹل پسند نہیں آ رہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے ہم ایک ریزورٹ کے باہر پُہنچے لیکن سب سو چکے تھے۔ ہم نے اونچی آوازیں دیں تو ایک لڑکا آیا اور ہمیں کمرے دکھائے جو ہمیں پسند بھی آ گئے۔ سامان رکھنے کے بعد ہم اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ مجھے ایسا احساس ہوا جیسے مجھے کھڑکی سے کوئی دیکھ رہا ہے، لیکن جب میں نے باہر دیکھا تو وہاں کُچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے پردے ٹھیک کیے اور باہر کھڑا ہو کے اپنے دوست کا انتظار کرنے لگا تا کے ہم کھانا لانے جا سکیں اور اسی دوران مجھے ایسا احساس ہوا جیسے کوئی میرے بلکل پاس کھڑا ہے اور مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں نے اِدھر اُدھر اچھی طرح دیکھا لیکن کُچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے اسے اپنا وہم تصوّر کیا اور ہم کھانا لینے کریماباد چلے گئے۔ واپس آ کر ہم نے ساتھ کھانا کھایا اور جب میں اپنے کمرے میں پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ میرا سامان جہاں رکھا گیا تھا وہاں نہیں ہے۔ اُنکی جگہ تبدیل کی جا چکی ہے اور سامان سلیقے سے رکھا ہوا ہے۔ یہ کام بیل بوائے کا ہو سکتا ہے، میں یہی سوچ رہا تھا کے اچانک سے دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ جب میں نے دروازہ کھولا تو باہر اتنا سناٹا تھا کے اگر سوئی بھی گرے تو آواز کرے، البتہ میرے والی راہداری کے آخر والے کمرے کی بتیاں جل رہی تھی اور باہر ایک جوتا پڑا ہوا تھا جسے دیکھ کر میں گھبرا گیا کیوں کے بیل بوائے کے مطابق اس منزل پر صرف ہم ہی تھے۔ میں نے کافی دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اندر سے کوئی آواز نہیں آئی اور اچانک سے اُسکی بتی بند ہو گئی۔ میں ڈرا اور وہاں سے تیز تیز اپنے کمرے کی طرف آنے لگا کے اچانک میری نظر باہر باغ میں لگے ایک بڑے سنگھوں والے مارخور کے سر پر پڑی جسکا منہ میری طرف ہی تھا اور اُسی اثناء میں نیچے سے ایک بلّی آئی اور میری طرف دیکھتے ہی بہت تیزی سے میرے پاس سے ہوتی ہوئی چھت پر بھاگ گئی جسے دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں نے اپنے دوست کو بلایا اور آیت ال کرسی کا ورد شروع کر دیا۔ جب میرا دوست آیا تو وہاں کوئی جوتے نہیں تھے۔ اس نے مجھے دلاسہ دیا اور بولا میں تمہارے کمرے میں لیٹ جاتا ہوں جو میں نے مناسب نہیں سمجھا اور اسے واپس بھیج دیا اور اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا۔ میں اسی بارے میں سوچ رہا تھا کے مجھے ایسا لگا کوئی میرے سر پر ہاتھ پھیر رہا ہے اور مجھے دبا رہا ہے۔ تھکاوٹ ہونے کی وجہ سے مجھے کافی سکون آیا لیکن ڈر بھی انتہا کا لگا۔ جیسے تیسے کرتے میں نے رات گزاری اور صبح اٹھتے ہی بیل بوائے کو بلایا اور تفصیلاً سب پوچھا جس پر اس نے بتایا کے یہاں ایسا کُچھ بھی نہیں ہے، یہ محض آپکا وہم ہوگا۔ ہم یہاں کئی سال سے ہیں ایسا کوئی واقعہ ہمارے ساتھ یا یہاں آنے والے مہمانوں کے ساتھ کبھی نہیں ہوا۔
وہ ہمارے کمرہ چھوڑ جانے کی وجہ سے ایسا کہہ رہا تھا کیوں کہ اُن مہینوں میں سیاہ بہت کم جاتے ہیں
اور جب میں نے سامان کا پوچھا تو اسنے بولا کے یہ اُسی کا کام ہے۔ تب میں نے اسکو اپنے کمرے میں جانے سے بلکل منع کردیا۔ لیکن میں دروازہ کھٹکھٹانے اور بتیاں جلنے بھجنے والا معاملہ کیسے بھول سکتا تھا.؟ خیر ہم نے دن گزارا اور رات کو پھر سے میں اپنے کمرے میں گیا تو میرا سامان پھر سے سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔ جس پر مجھے غصّہ بھی آیا اور حیرانی بھی ہوئی کے میرے منع کرنے کے باوجود بیل بوائے کمرے میں کیوں آیا.! چونکہ رات ہو چکی تھی تو سوچا صبح پوچھوں گا۔ رات پھر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ڈرتے ہوئے جب میں نے دروازہ کھولا تو وہی سناٹا اور اُسی کمرے کی بتیاں جل رہی تھیں جسے دیکھ کر میری سانس بند ہونے کو آگئی اور حلق بلکل خشک ہوگیا۔ میں نے جلدی سے دروازہ بند کیا لیکن ایسا احساس ہوا کہ کوئی اندر آیا ہے۔ میں نے آیت ال کرسی اور قل پڑھنے شروع کر دیئے اور بولا تم جو بھی ہو چلے جاؤ یہاں سے۔ میں اسی ڈر سے لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن پھر گزشتہ رات کی طرح مجھے احساس ہوا کوئی میرے بالوں میں کوئی ہاتھ پھیر رہا ہے اور مجھے دبا رہا ہے۔ وہ رات مجھے میری آخری رات لگ رہی تھی۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بیل بوائے کو بلایا اور تھوڑا غصّہ کیا کے میرے منع کرنے کے باوجود وہ میرے کمرے میں کیوں گیا.؟ اُس نے ٹال مٹول کرنے کی کوشش کی لیکن میں کافی بضد تھا تب اس نے بتایا کے یہاں ایک روحانی مخلوق رہتی ہے جو کہ اُس کے مطابق کبھی اس زمین کی مالکن ہوا کرتی تھی لیکن وہ کسی کو پریشان نہیں کرتی اور نیک روح ہے اور وہ بہت کم عیاں ہوتی ہے اور سیاہ نا ہونے کی وجہ سے اُسے ہم سے جھوٹ بولنا پڑا تھا۔ پھر ہم نے وہاں سے جانے میں ہی بہتری سمجھی۔
چونکہ ہنزہ کے لوگ بہت مہمان نواز اور خوش طبیعت ہوتے ہیں تو میرے خیال میں وہ مہمان نواز روح تھی جو آنے والے سیاحوں کا خیال رکھتی تھی۔ لیکن کبھی کبھی مجھے وہ وہم بھی لگتا ہے۔