لاشوں کے سوداگر ۔۔۔۔تحریر ایم خان۔۔۔
السلام علیکم دوستو آج ایک اور عبرتناک سچا واقعہ لیکر آپکی خدمت میں حاضر ھوا ھوں۔۔یقینن آپکو پسند آئیگا۔۔
یہ واقعہ توجہ طلب ہے۔۔اپنی آراء سے ضرور آگاہ کرے۔۔شکریہ۔۔سب سلامت رہیں۔۔آمین
جائے وقوعہ اورنگی ٹاون سیکٹر 4 مکہ بستی تاریخ 20 اپریل 2020۔۔
پوری دنیا کیطرح کراچی میں بھی کورونا نے خوف وہراس پھیلا رکھا ہے۔۔
شہر میں ہو کا عالم ہے۔۔دیہاڑی دار مزدور گھر تک محدود ہے۔۔انڈسٹریاں بند پڑی ہے۔۔ہزاروں ورکروں کو فارغ کیا جا چکا ہے۔۔۔
مارکیٹیں سنسان اور مساجد ویران ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افواہوں کا بازار گرم ہےمیڈیا کی سنسنی خیز خبروں نے خوف وہراس کو مزید ہوا دی ہے۔۔۔اور حکومتی وزراء خوفناک نقشہ کھینچ کر عوام کو گھروں میں محدود کرنے کی جتن میں مصروف ہیں۔۔۔۔
رات کے گیارہ بج رہے ہیں۔اور منظر اورنگی ٹاون کی کچی آبادی مکہ بستی کا ہے۔۔پتلی سی گلی میں چند چارپائیاں بچھی ہوئی ہے۔۔۔
جسمیں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔۔ایک طرف الگ تھلگ ایک غمزدہ نوجوان گردن جھکائے کسی گہری سوچ میں گم ہے۔۔
نوجوان کا نام واجد علی ہے اسکے والد کا ایک گھنٹہ پہلے قطر ہاسپٹل میں انتقال ہوا تھا اور میت بزریعہ
ایمبولینس ابھی ابھی پہنچی ہے۔۔گھر سے عورتوں کی بین کرنے کی آوازیں ماحول کو مزید سوگوار کر رہی ہے۔۔
واجد علی کے والد عرصہ دراز سے دمے کے عارضے میں مبتلا تھے۔۔۔
آج رات آٹھ بجے انکی حالت بگڑی اور انکی سانسیں اکھڑنے لگی۔۔تو واجد علی نے ایمبولینس منگوائی اور اپنے بھائی عابد علی اور محلے کے دو افراد کیساتھ والد کو قطر ہاسپٹل اورنگی ٹاون لے گئے۔۔۔
مگر ہاسپتل پہنچ کر انکی حالت مزید غیر ہو گئی اور گھنٹہ بھر میں ہی انکا انتقال ہو گیا۔۔
واجد علی ۔۔ عابد علی ۔۔چار بہنیں ۔۔اور مان باپ یہ چھ افراد کے کنبہ تھا جو اورنگی ٹاون مکہ بستی میں دو کمرے کے کرائے کے مکان میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔۔۔دونوں بھائیوں نے ہوش سنبھالتے ہی منی بس میں کنڈیکٹری شروع کی تھی اور تاحال وہ اسی کام سے وابستہ تھے۔۔
لاک ڈاون نے اس غریب خاندان کو بالکل ادھہ موا کردیا تھا۔۔اور گزشتہ ایک ماہ سے ٹرانسپورٹ کی بندش نے اس خاندان کو فاقہ کشی پہ مجبور کر دیا تھا۔۔
ایک تو کمر توڑ مہنگائی اور اوپر سے والد کی بیماری پہ آنے والے اخراجات جو قرض لیکر کئے گئے تھے۔۔۔ والد کے صدمے کیساتھ اسے قرضے کی رقم اور والد کے کفن دفن اور سوئم کے اخراجات کی بھی فکر کھائے جارہی تھی۔۔
وہ اپنے خیالوں میں گم تھا کہ سامنے دو اجنبی موٹر سائکل کھڑی کر کے اسکی طرف بڑھے۔۔دونوں شکل وصورت اور حلیے سے پڑھے لکھے اور مہزب نظر آتے تھے۔۔
واجد علی سے مصافحہ کے بعد دونون نے اپنا تعارف۔۔۔احمد سلیم۔۔۔اور لئیق احمد کے ناموں سے کروایا۔۔
واجد علی حیرانی سے انھیں دیکھ رہا تھا ۔۔وہ ان کے آنے کے مقصد سے قطعی بےخبر تھا۔۔دونوں واجد علی کے دائیں بائیں چارپائی پر بیٹھ گئے۔۔
پھر لئیق احمد واجد علی کیجانب جھکا اور دھیمے لہجے میں اس سے کچھ کہنے لگا۔۔۔۔اسکا انداز بہت ہی ھمدردانہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لئیق احمد کی بات سنکر واجد علی کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔۔
یہ ۔۔۔یہ ۔۔۔کیسے ۔۔۔نہیں۔۔۔کورونا۔۔۔۔واجد علی ہکلانے لگا۔۔وہ سراسیمگی سے دونوں کو تکا جا رہا تھا۔۔
اب کی بار احمد سلیم نے واجد علی کو مخاطب کیا۔۔۔۔۔۔۔
واجد علی آپ کے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔۔۔موجودہ کٹھن حالات میں ھم تمھاری مدد کرنا چاھتے ہیں۔۔تمھیں ایک فارم پہ دستخط کرنے ھونگے جسکی رو سے تمھارے والد۔۔کوڈ 19 (کورونا) کے باعث انتقال کر گئے ہیں۔۔بس اس فارم کو بھر دو ھم امداد کی مد میں چار لاکھ روپے کیش آپکو دےدینگے۔۔۔اور فوری ایمبولینس میں باڈی لے جاکر اسے ڈبلیو ایچ او کے طے کردہ اصولوں کیمطابق تدفین کردینگے۔۔۔دیکھو ویسے بھی حکومت کی جانب سے جنازے میں خاندان کے دس افراد تک ہی اجازت ہے۔۔۔۔یہ آپکے لئے بہت اچھا پیکج ہے۔۔۔احمد سلیم بولے جارھا تھا اور واجد علی بت بنا سن رہا تھا۔۔اسے احمد سلیم کی آواز کسی کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔
اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔۔۔اسے ایک طرف قرضہ ۔۔۔مکان کا کرایہ والد کی تدفین کے اخراجات اور لاک ڈاون کی طویل ھوتی بندشیں منہ چڑا رہے تھے۔۔۔۔۔
اور دوسری طرف ان سب مسائل کا فوری حل اسے اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔۔وہ عجیب دوراھے پہ کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔
پھر وہ گم صم خواب کی سی کیفیت میں اپنی جگہ سے اٹھا اور گھر کے ایک کمرے میں عابد علی کیساتھ باتیں کرنے لگا۔۔
دونوں بھائی تھکے تھکے قدموں سے سرجھکائے مجرموں کیطرح کھڑے تھے۔۔۔انھیں آج شکست ھو گئی تھی۔۔۔غربت کے ساتھ ساتھ دردناک لاک ڈاون نے انھیں گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردیا۔۔شکست خوردگی دونوں کے چہرے اور لہجوں سے صاف عیاں تھی
احمد سلیم اور لئیق احمد کے چہرے۔۔فتح کے غرور سے دمک رہے تھے۔۔ھمارے بارے میں کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہی۔۔اگر کوئی پوچھے تو کہہ دینا کورونا سینٹر سے آئے تھے۔کورونا کی رپورٹ لیکر بس اور کچھ نہی کہنا۔۔
لاشوں کے سوداگر ایک اور لاش کا سودا کرنے میں کامیاب ھوگئے تھے۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ایمبولینس کے پیچھے میڈیا کی گاڑیاں بھی علاقے میں داخل ہوئی۔۔۔
اور پھر بریکنگ نیوز کی ریہر سہل ھونے لگی۔۔۔
معیشت کے بجائے ھمیں انسانی جانیں عزیز ہیں ھم لاک ڈاون کو مزید پندرہ دن برھاتے ہیں۔۔یہ سخت ترین لاک ڈاون ھوگا۔۔صوبائی وزیر کی چیخیں ملک بھر میں گونجنے لگی۔۔۔تاجر کی آواز دب گئی۔۔مزدورو۔۔کی آس ٹوت گئی۔۔اور لاک ڈاوں بڑھتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔