اہور میں رنگ روڈ پہ ایک بس سٹاپ ہوا کرتا تھا تاج کمپنی کا سٹاپ۔ جب سے رنگ روڈ بنا ہے پورا نقشہ بدل گیا ہے۔ اسی سٹاپ سے ذرا آگے آئے تو صابر پئا کا مزار ہے۔ میری نانی بتاتی ہے کہ جب میرے ماموں خالہ وغیرہ چھوٹے تھے تو اکثر یہاں قاری صاحب سے دم کروانے جایا کرتی تھی۔ یہ مزار ایک بہت بڑی مسجد ہے۔ جہاں اب بھی بہت سے جنات حاضری لگانے آتے ہیں۔ تو آگے اب نانی کی زبانی واقعہ سنئے ۔
طاہر اور شازیہ بہت چھوٹے تھے ۔ دونوں کو اکھٹے ہی بخار نے آلیا۔ ان دنوں شاید 1971 کی جنگ تازہ تازہ بند ہوئی تھی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ بخار اتنا شدید تھا کہ جانے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ قاری صاحب سے دم کروا لاتی ہوں۔ شکل دوپہر کے دن تھے۔دوپہر کی نماز سے پہلے ایک کو گود میں اٹھایا ہوا تھا اور ایک کو انگلی پکڑا کر میں مزار والی مسجد آگئی۔
آگے بہت ہی رش تھا۔ عجیب بھدی سی شکل والی عورتیں اپنے اپنے بچے لے کر بیٹھی ہوئی تھی دم کروانے کے لئے۔ میں بھی بیٹھ گئی۔ مگر سب کی سب مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی رہی۔ اور کانوں میں چئں مگوئیاں شروع کر دی۔ اتنے میں قاری صاحب کی نظر مجھ پہ پڑی اور بہت ہی جلالی انداز میں دھاڑ کر بولے کہ تو اس وقت کیوں آئی ہے۔ میں نے کہا کہ بچوں کو بخار ہے دم کروانا ہے۔ وہ مزید غصہ ہوتے ہوئے بولے کہ تو نہیں جانتی کہ زوال کے ٹائم گھر سے نہیں نکلتے اور تو بچے لے کر یہاں آدھمکی ہے۔ اف اللہ اب میں سمجھے کہ یہ سب کیوں مجھے گھور گھور رہی تھیں۔ میں نے وہی بچے دونوں گود می لٹکائے اور الٹے پاوں گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔
وہ سب اصل میں جنات تھے جو دم کروانے آئے ہوئے تھے۔ میری بیچاری نانی انجانے میں پہنچ گئ وہاں۔ اب تو میری نانی کو بھی فوت ہوئے 12 سال ہونے والے ہیں۔ ان کے حق میں دعائے مغفرت کر دیجئے گا۔۔۔۔۔