گوجرانوالہ میں ایک اسلامک اکیڈمی میں قرآن پاک حفظ کرنے جاتے تھے
وہاں لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے تھے لڑکیوں نے وضو کرنا تو اپنے دوپٹے یا رومال وغیرہ سے ہاتھ منہ خشک کر لینا
پر اکیڈمی میں تقریبا ہر لڑکے کی عادت تھی وضو کر کے گیلے ہاتھ چھنکاتے تھے ہمارے قاری صاحب ہمیں کہتے وضو کر کے گیلے ہاتھ نہ چھنکا کرو ہم سمجھتے شاید یہ بری عادت ہے اس لیے منع کرتے ہیں ہم باز نہ آئے اکثر ایسے ہی کرتے حیرت تب ہوتی تھی جب قاری صاحب کی غیر موجودگی میں بھی ہم ہاتھ چھنکاتے اور پھر بھی قاری صاحب کو پتہ چل جاتا تھا ایک دن قاری صاحب باہر کسی کام سے واپس آۓ اور کلاس میں بیٹھ کر اپنی تلاوت کرنے لگ گئے پتہ نہیں اچانک کیا ہوا اپنا قرآن پاک بند کر کے چپ چاپ بیٹھ گئے تھوڑی دیر کے بعد ہم سب کو بھی چپ کرا دیا اور بڑے غصے سے پوری کلاس کو بولنے لگ گئے روز تم انسانوں کی شکایت ملتی روز تم تنگ کرتے ہو۔۔۔یہ وہ وغیرہ وغیرہ
جب تھوڑا غصہ ٹھنڈا ہوا تو کہتے آپ کو کتنی مرتبہ سمجھایا ہے کہ ہاتھ نہ چھنکا کرو مگر تم ڈھیٹ ترین ہو بات نہیں مانتے ہمیں لگا شاید کسی لڑکی نے شکایت لگائی ہے ہم نے کہا قاری صاحب اب تو ایسا کوئی نہیں کرتا تو قاری صاحب کہتے آپ کو لگتا ہے یہاں کلاس میں بس آپ پڑھتے ہیں اس کلاس میں اور بھی مخلوق پڑھتی ہے یہ بھی مسلمان ہیں آگ سے بنے ہیں یہ سب ادھر تمہارے آس پاس ہوتے ہیں اور جب تم لوگ وضو کرکے ہاتھ چھنکاتے ہو ان پر چھینٹے پڑتے ہیں جب آگ پر تھوڑا پانی ڈالو تو کیسے وہ بھڑکتی ہے اسی طرح ان پر پانی پڑتا ہے تو انکو تکلیف ہوتی ہے یہ معصوم ہیں تم لوگوں کو کچھ کہتے نہیں روز تمہاری شکایت کرتے ہیں اس لیے وضو کر کے ایسے نہ کیا کرو کسی کو زیادہ مسلہ ہے میرے گھر سے تولیے لا کر رکھ لو ہاتھ خشک کرنے کو پر دوبارہ شکایت نہ ملے
اس دن کے بعد کبھی بھی کسی نے بھی گیلے ہاتھ نہیں چھنکائے اور نہ قاری صاحب نے دوبارہ اس طرح ڈانٹا ہمیں پتہ نہیں وہ کونسی مخلوق تھی جو ہمارے ساتھ قرآن پاک حِفظ کرتے تھے مگر کبھی خود کو ظاہر نہیں کیا نہ ہمیں کبھی تنگ کیا۔۔۔۔