آج جو واقعہ آپ لوگوں سے شیئر کرنے جارہا ہوں وہ حقیقت پر مبنی ہے اور میرے ساتھ پیش آیا جب میں پاکستان میں سنیک ہنٹنگ کرتا تھا..("میں عامر الیاس ماہر سنیک ریسکیور”) ہوں.
یہ ابتدائی دنوں کی بات ہے جب میں نے نئی نئی عمران بھائی( پاکستان کے جانے مانے سانپوں کے ماہر) سے سانپ پکڑنے کی ٹیکنیکس سیکھنی شروع کی تھی. تب یہ ہوتا تھا عمران بھائی سانپ پکڑنے کے لیے ساتھ تو لے جاتے تھے لیکن سانپ مجھے گھر میں رکھنے کے لیے نہیں دیتے تھے شاید اسلیے کہ میرے گھر والے کوئی ری ایکٹ نہ کریں. بہرحال سانپوں کو پکڑنے اور رکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا
چاند مری گراونڈ گرین ٹاون لاہور جہاں فوجی چھاونی ہے اور اپنے پاک فوج کے شیر جوان وہاں ڈیلی اپنی مشقیں کرتے ہیں جس میں نشانہ بازی اور دوسری بہت سی مشقیں شامل ہیں.. کیونکہ یہ ایریا فوج کے انڈر ہے تو وہاں اس وقت تک تو گھنا جنگل تھا ببول یا دیسی کیکر کے درختوں کی بھرمار تھی اور اکثر ایریا دُھدَل، یا دھول سے فل اٹا ہوا تھا جبکہ ساتھ ساتھ ڑڑا میدان یعنی جس زمین پر چھوٹے چھوٹے پتھر ہوتے ہیں وہ بھی موجود تھا اور ایسی زمین پر سا سکیلڈ وائیپر کھپرا، جلیبی، لنڈی، اڈنا بھی کہا جاتا ہے بہت زیادہ تعداد میں ملتا تھا. جبکہ جس سائڈ میں فصلیں تھیں ادھر گولیرا سانپ، چوہا خور سانپ، گلوسی بیلڈ ریسر سانپ اور کوبرا سانپ بہت ملتے تھے.
یہ غالباً 2004 کی بات ہے جب میرے ایک کزن جو کے گرین ٹاؤن لاہور والی سائڈ پر رہتے ہیں اور انکا ٹھیکہ بھٹہ مزدوروں کے ساتھ تھا جو اینٹیں بھٹوں پر بناتے ہیں. اس طرف تھوڑا سا آگے علاقہ گجر کالونی ہے جہاں لوگوں نے اسے بتایا کے کام کرنے کے دوران انہوں نے جت والا سانپ یا بالوں والا سانپ دیکھا ہے.
اب جب مجھے میرے کزن نے بتایا کہ اسطرح اسطرح لوگ کہہ رہے ہیں تو میرا بھی انٹرسٹ اس بات کی طرف بڑھا اور میں نے وعدہ کیا کہ ٹھیک ہے میں آپکے ساتھ اس جگہ کا وزٹ کروں گا جہاں جت والا سانپ دیکھا گیا ہے.. تو کچھ دن بعد وہ مجھے لے کرمغرب سے تھورا بعد ایک سنسان بیابان جگہ پر گیا جہاں بے شمار کچی اینٹیں پڑیں تھیں جن کو اگلے دن بھٹے میں پکایا جاتا ہے اور زیادہ تر ڑیڑھی بان رات کو ہی یہ کچی اینٹیں اٹھا کر بھٹے تک پہنچا دیتے ہیں جنکو اگلے دن بھٹی پر پکا لیا جاتا ہے..
اور بقولِ ان ڑیڑھی بانوں نے ہی جت والے سانپ کو دیکھنے کا دعوی کیا تھا. تو مجھے مختصراً ان تمام لوگوں کا انٹرویو کیا جنہوں نے مجھے ٪100 کنفرم کیا کے اسکی لمبائی کوئی 3 سے 5 فٹ تک تھی اور اسکے سر پر اوپر والی سائیڈ پر انسانوں کی طرح بال تھے اور. بالوں کی لمبی لائن اسکی دم تک جاتی تھی..
بہرحال یہ تو تھی انکی بات میں کسی چیز پر تب تک یقین نہیں کرتا جبتک اسے خود دیکھ نہ لوں تو میں نے اس جگہ کو دیکھا جہاں مجھے اسکی موجودگی کا بتایا گیا تھا کافی تلاش کرنے پر مجھے کسی سانپ کی کینچلی کے چھوٹے چھوٹے چیتھڑے ملے جو کافی پرانے تھے، اسکے علاوہ کچھ نہیں ملا،
رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا تقریباً رات 11 کا ٹائم ہوچکا تھا کافی وقت ادھر سرچ کرتے اور گپیں ہانکتے رہنے کے بعد پیدل ہی گرین ٹاون کی راہ لی پیدل کوئی 45 منٹ کا راستہ تھا.. ہم دونوں پیدل چلتے چلتے گرین ٹاون کی ریلوے لائن تک پہنچ چکے تھے وہاں بہت دھول سے اٹا علاقہ تھا پاؤں رکھیں تو آدھا آدھا پاؤں اندر دھنستا تھا.. کافی زیادہ سانپوں کی آنے جانے کی لائنز نظر آرہی تھیں تو میں نے کزن سے کہا کہ کچھ سانپوں کی تلاش کی جائے اور انکو پکڑا جائے ابھی 10 سے 20 منٹ ہی انتظار کیا تھا ایک 4 فٹ کے قریب غیر زہریلا گلوسی بیلڈ ریسر سانپ نظر آیا جسکو لپک کر پکڑ لیا اب کوئی چیز پاس ایسی تھی نہیں جس میں سانپ کو ڈالا جاتا تو میں نے اپنی ٹی شرٹ اتار کر اسکے بازوں کو اور نیچے سے گرہ لگا دی اور گلے والی سائڈ سے سانپ کو ڈال کر مضبوطی سے سانپ کو پکڑ لیا اور وہیں بیٹھ کر دوسرے شکار کا انتظار کرنے لگے ہماری بیک سائڈ پر کیکر کے درختوں کی بہتاب تھی.. ابھی کچھ 20 منٹ ہی گزرے تھے اور ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کے جت والا سانپ نہیں ہوتا ہے اسکی کوئی حقیقت نہیں ہے کے اچانک ہماری بیک سائڈ والا کیکر کا درخت زور زور سے ہلنا شروع ہوگیا ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اسکو پکڑ کر جھنجھوڑ رہا ہے کوئی آدھے منٹ میں ہی ہم دونوں سر پر پاؤں رکھ کر اندھا دھند بھاگ رہے تھے ایک چیز جو میں نے ہوش و حواس میں دیکھی وہ یہ تھی کے تقریباً 10 سے 15 درختوں کو بلکل ویسے ہی پکڑ کر کچھ ان دیکھی طاقتوں نے زور زور سے ہلایا تھا تیز سے تیز ہوا درختوں کو ایسے نہیں جھنجھوڑ سکتی.. ہم بھاگ رہے تھے اور زمین پر ہمارے ساتھ ساتھ کُھسسے جیسے کوئی فٹ فٹ کے پاؤں کے نشان پڑ رہے تھے لیکن چیز نظر کوئی نہیں آرہی تھی میں ہیجانی سی کفیت میں آیت الکرسی زور زور سے پڑھی جا رہا تھا اور سرپٹ بھاگے جا رہے تھے.. آگے کوئی 8 یا 10 کتے بیٹھے ہوے تھے انہوں نے ہمیں اپنی طرف آتا دیکھا تو وہ ہم سے بھی آگے بھونکتے ہوئے بھاگی جا رہے تھے. تقریباً آدھا کلو میٹر کے بعد وہ نشان آنا بند ہو گئے ہم پسینے میں شرابور ہو چکے تھے اور پتہ نہیں میری ٹی شرٹ اور سانپ بے دھیانی کے عالم میں کہاں گر چکا تھا.. اللہ اللہ کر کے کزن کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا اسکے ابو نے دروازہ کھولا اور میری حالت دیکھی کے گلے میں شرٹ نہیں، پاؤں مٹی سے اٹےّ ہوئے ہیں تو میرے کزن کو گالیاں دینے لگے کے کہاں لے کر گیا تھا آدھی رات کو اسے اور حالت کیا بنائی ہوئی ہے تم لوگوں نے، ہم نے بہانہ لگا دیا کے کتے پیچھے پڑ گئے تھے اور میری شرٹ بھی انہوں نے پھاڑ دی اسلیے پھینک دی.. لیکن یہ تھا اس رات پتہ نہیں بخار کیوں تیز ہوگیا ڈر کا کچھ خوف بھی رہا لیکن پھر کچھ دنوں میں یہ خوف بھی جاتا رہا اور پھر سنیک ہنٹگ جاری رہی.. آج بھی وہ ٹائم یاد آتا ہے تو غیر مرئ چیزوں کے وجود پر یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ خالی ہم انسان ہی اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں دوسری بہت سی اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوق اپنا وجود رکھتی ہیں چاہے وہ نظر آئیں یا نہ آئیں.. جس جت والے یا بالوں والے سانپ کا ذکر لوگ کرتے ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا میرا ماننا ہے کہ یہ بھی کوئی غیر مرئ مخلوق ہی ہو سکتی ہے جو ویرانوں میں سانپ کی شکل میں پھرتا یا پھرتی ہے.کیونکہ کچھ احادیث سے پتہ چلتا ہے کے شیاطین سانپ کی شکل سب سے زیادہ اختیار کرتے ہیں . دوسرا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سانپ اپنی کینچلی اتار رہا ہو اور اسکی کچھ سکن باقی ہو اور لوگ اسکو جت والا سانپ سمجھ لیتے ہوں.